اسلام آباد: وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے وزیر اعظم ہاوس میں امریکی سینٹرز کے وفد سے ملاقا ت کے دوران کہی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے دونوں ممالک کے خفیہ اداروں اور اعلی سطی رابطوں میں اضافہ کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد مشروط کرنے سے دہشت گردی کے جنگ میں خلاف مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے تک اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس موقع پر امریکی کانگر س کے وفد کے سربراہ جیک ریڈ نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کے تحفظات امریکی سینٹ تک نہیں پہنچائیں گے۔
Friday, April 17, 2009
نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر اجتماع؟
نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر اجتماع؟
اطلاعات کے مطابق پاک افغانستان سرحد کے قریب امریکی و اتحادی افواج کی نقل وحرکت میں اضافہ ہوگیا اور 500 سے زائد اتحادی ،جدید اسلحہ سیکڑوں ٹینکوں ‘ توپ خانوں اور ہیلی کاپٹرو جنگی جہازوں سے لیس ہوکر پاکستانی سرحد کے قریب پہنچ گئے ہیں، علاقے میں اتحادی جنگی طیاروں کی پروازیں بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل اطہر عباس نے پاک افغان سرحد پر نیٹو فورسز کے گشت سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، نقل وحمل افغان سرحد کے اندر ہے اور پاکستان سے خاصے فاصلے پر ہے۔ادھرامریکی صدر بش بھی کہہ رہے ہیں پاکستان سے انتہا پسندوں کا افغانستان جانا پریشان کن ہے جبکہ وزبر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی کہہ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے باعث نائن الیون طرز کا واقعہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔
نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر جمع ہوناخطرے کی گھنٹی تو نہیں؟ کیا موجودہ حکومت امریکی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوسکے گی ؟ کیا دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے ؟ کیا واقعی نائن الیون کی تاریخ دہرائی جائے گی ؟سرحدوں کی تشویشناک صورتحال پر وزیر اعظم کا بیان کس بات کی عکاسی کر رہا ہے ؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
اطلاعات کے مطابق پاک افغانستان سرحد کے قریب امریکی و اتحادی افواج کی نقل وحرکت میں اضافہ ہوگیا اور 500 سے زائد اتحادی ،جدید اسلحہ سیکڑوں ٹینکوں ‘ توپ خانوں اور ہیلی کاپٹرو جنگی جہازوں سے لیس ہوکر پاکستانی سرحد کے قریب پہنچ گئے ہیں، علاقے میں اتحادی جنگی طیاروں کی پروازیں بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل اطہر عباس نے پاک افغان سرحد پر نیٹو فورسز کے گشت سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، نقل وحمل افغان سرحد کے اندر ہے اور پاکستان سے خاصے فاصلے پر ہے۔ادھرامریکی صدر بش بھی کہہ رہے ہیں پاکستان سے انتہا پسندوں کا افغانستان جانا پریشان کن ہے جبکہ وزبر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی کہہ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے باعث نائن الیون طرز کا واقعہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔
نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر جمع ہوناخطرے کی گھنٹی تو نہیں؟ کیا موجودہ حکومت امریکی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوسکے گی ؟ کیا دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے ؟ کیا واقعی نائن الیون کی تاریخ دہرائی جائے گی ؟سرحدوں کی تشویشناک صورتحال پر وزیر اعظم کا بیان کس بات کی عکاسی کر رہا ہے ؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
امریکی جنگی حکمت عملی اور پاکستان کا رد عمل!
امریکی جنگی حکمت عملی اور پاکستان کا رد عمل!
امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن نے پنٹاگون میں بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ نئی فوجی حکمت عملی میں پاکستان کے اند ربھی کارروائی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بائیں گے۔اس سے قبل صدر بش بھی اسی طرح کا حکمت علی کا اظہار کرچکے ہیں۔ امریکی کمانڈر کے اس بیان پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ ملکی سرحدوں کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا۔ پاکستان میں کسی غیر ملکی افواج کو آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، اتحادی افواج کے ساتھ تعاون میں قوائد و ضوابط طے شدہ ہیں،اتحادی افواج سے پاکستانی حدود کے اندر کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
کیا پاکستان کے اندرونی علاقوں پر کارروائی پاکستان پر براہ راست حملے کی دھمکی نہیں ہے؟ کیا ہم نے تعاون کا معاہدہ اس لئے کیا تھا کہ ہم پر ہی چڑھائی کی جائے ؟ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے فوری طور پرکیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟۔ اس بارے میں آپ کی کیارائے ہے۔
امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن نے پنٹاگون میں بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ نئی فوجی حکمت عملی میں پاکستان کے اند ربھی کارروائی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بائیں گے۔اس سے قبل صدر بش بھی اسی طرح کا حکمت علی کا اظہار کرچکے ہیں۔ امریکی کمانڈر کے اس بیان پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ ملکی سرحدوں کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا۔ پاکستان میں کسی غیر ملکی افواج کو آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، اتحادی افواج کے ساتھ تعاون میں قوائد و ضوابط طے شدہ ہیں،اتحادی افواج سے پاکستانی حدود کے اندر کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
کیا پاکستان کے اندرونی علاقوں پر کارروائی پاکستان پر براہ راست حملے کی دھمکی نہیں ہے؟ کیا ہم نے تعاون کا معاہدہ اس لئے کیا تھا کہ ہم پر ہی چڑھائی کی جائے ؟ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے فوری طور پرکیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟۔ اس بارے میں آپ کی کیارائے ہے۔
سیکورٹی ہائی الرٹ یا ہائی فلرٹ؟
سیکورٹی ہائی الرٹ یا ہائی فلرٹ؟
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت کے بعد خود ہماری سیکورٹی یا سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ہمارا ملک پے درپے خود کش حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ملک کی حساس ترین مقامات بھی خود کش حملوں سے محفوظ نہیں۔رواں سال کے آغاز سے اب تک درجنوں خود کش حملوں بھاری مالی اور جانی نقصان ہوچکا ہے۔حساس مقامات پر سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود خودکش حملے شہریوں کیلئے باعث تشویش ہیں۔ عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔سیکورٹی ہائی الرٹ مذاق بن کر رہ گئی ہے یا یہ کہیے کہ سیکورٹی ہائی فلرٹ ہوتی جا رہی ہے۔اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت کے بعد خود ہماری سیکورٹی یا سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ہمارا ملک پے درپے خود کش حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ملک کی حساس ترین مقامات بھی خود کش حملوں سے محفوظ نہیں۔رواں سال کے آغاز سے اب تک درجنوں خود کش حملوں بھاری مالی اور جانی نقصان ہوچکا ہے۔حساس مقامات پر سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود خودکش حملے شہریوں کیلئے باعث تشویش ہیں۔ عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔سیکورٹی ہائی الرٹ مذاق بن کر رہ گئی ہے یا یہ کہیے کہ سیکورٹی ہائی فلرٹ ہوتی جا رہی ہے۔اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
پاکستان میں میزائل حملوں پراوبامہ کا پیغام !
پاکستان میں میزائل حملوں پراوبامہ کا پیغام !
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں میزائل حملے جاری رہیں گے اورہر جگہ القاعدہ کا تعاقب کیا جائے گااس فیصلے سے پاکستان کو آگاہ کردیا گیا ہے،طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے اوروہ آزادانہ سرحد پارکرتے ہیں،اسلام آباد دوست اورساتھی ملک ہے جس کی صورتحال پر گہری نگاہ ہے،پاکستان اورافغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی محاذ ہیں،افغانستان امریکا کیلئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے اورمستقبل میں امریکا کو افغانستا ن میں مشکل اورطویل جنگ کا سامنا ہے۔ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کوسیکورٹی پر بریفنگ دیتے ہوئے رابرٹ گیٹس نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا دوست اورساتھی ہے اورہمارے لئے ضروری ہے ہم پاکستان کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں۔انہوں نے کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کی صورتحال پر ان کی گہری نگاہ ہے۔افغانستا ن کے حوالے سے امریکی وزیر دفاع نے بتایا کہ افغانستا ن امریکا کے لئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے،اس حوالے سے واضح ہدایت کی ہے امریکی فوجی وسائل عراق سے افغانستان اورپاکستان منتقل کئے جائیں کیوں کہ یہ خطہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں کا مرکزی محاذہے۔ اوبامہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔
اوبامہ کا پیغام بش پالیسیوں کا تسلسل نہیں؟اوباما کے اس بیان پر حکومت پاکستان کا کیا موقف ہونا چاہئے؟ایک طرف تو امریکا پاکستان کو دوست اور ساتھی کہتاہے اور دوسری طرف میزائل حملے کیے جاتے ہیں کیا دوستوں کی مدد اس طرح کی جاتی ہے؟اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں میزائل حملے جاری رہیں گے اورہر جگہ القاعدہ کا تعاقب کیا جائے گااس فیصلے سے پاکستان کو آگاہ کردیا گیا ہے،طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے اوروہ آزادانہ سرحد پارکرتے ہیں،اسلام آباد دوست اورساتھی ملک ہے جس کی صورتحال پر گہری نگاہ ہے،پاکستان اورافغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی محاذ ہیں،افغانستان امریکا کیلئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے اورمستقبل میں امریکا کو افغانستا ن میں مشکل اورطویل جنگ کا سامنا ہے۔ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کوسیکورٹی پر بریفنگ دیتے ہوئے رابرٹ گیٹس نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا دوست اورساتھی ہے اورہمارے لئے ضروری ہے ہم پاکستان کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں۔انہوں نے کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کی صورتحال پر ان کی گہری نگاہ ہے۔افغانستا ن کے حوالے سے امریکی وزیر دفاع نے بتایا کہ افغانستا ن امریکا کے لئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے،اس حوالے سے واضح ہدایت کی ہے امریکی فوجی وسائل عراق سے افغانستان اورپاکستان منتقل کئے جائیں کیوں کہ یہ خطہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں کا مرکزی محاذہے۔ اوبامہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔
اوبامہ کا پیغام بش پالیسیوں کا تسلسل نہیں؟اوباما کے اس بیان پر حکومت پاکستان کا کیا موقف ہونا چاہئے؟ایک طرف تو امریکا پاکستان کو دوست اور ساتھی کہتاہے اور دوسری طرف میزائل حملے کیے جاتے ہیں کیا دوستوں کی مدد اس طرح کی جاتی ہے؟اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟
طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر فوج ساتھ نہ دیتی تو طالبان اسلام آباد میں داخل ہوسکتے تھے۔امریکی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری کا کہا کہ طالبان ملک کے بڑے حصہ میں موجود ہیں، اور وہ ہماری بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ ہمارا طرز زندگی بدلنا چاہتے ہیں انہیں روکنا ہوگا۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر فوج ساتھ نہ دیتی تو طالبان اسلام آباد میں داخل ہوسکتے تھے۔امریکی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری کا کہا کہ طالبان ملک کے بڑے حصہ میں موجود ہیں، اور وہ ہماری بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ ہمارا طرز زندگی بدلنا چاہتے ہیں انہیں روکنا ہوگا۔
قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملے!
قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملے!
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے بغیر پائلٹ جاسوس طیارے پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بننے کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کیلئے اس کے امریکا کے ساتھ تعاون کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اس ایشو پر عوامی سطح پر بیان دیا ہے کہ آخر پاکستانی سرزمین پر حملوں کیلئے یہ جاسوس طیارے کہاں سے اڑتے ہیں اور کہاں لینڈ کرتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے کئی ماہرین کا یہ خیال تھا کہ یہ جاسوس طیارے افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں تاہم فائن اسٹائن کے بیان کے بعد ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف اسلام آباد میں حکومت کیلئے کئی سیاسی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے بغیر پائلٹ جاسوس طیارے پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بننے کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کیلئے اس کے امریکا کے ساتھ تعاون کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اس ایشو پر عوامی سطح پر بیان دیا ہے کہ آخر پاکستانی سرزمین پر حملوں کیلئے یہ جاسوس طیارے کہاں سے اڑتے ہیں اور کہاں لینڈ کرتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے کئی ماہرین کا یہ خیال تھا کہ یہ جاسوس طیارے افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں تاہم فائن اسٹائن کے بیان کے بعد ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف اسلام آباد میں حکومت کیلئے کئی سیاسی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)