پاکستان نے بالآخر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ ممبئی حملوں کی کچھ منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی ہے۔ اگلے روز وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ رحمٰن ملک نے یہ بات تسلیم کی کہ ممبئی حملوں کی سازش جزوی طور یہاں تیار ہوئی۔ سازش کے ماسٹر مائنڈ سمیت 8افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، 6افراد پہلے ہی زیرحراست ہیں۔ مشیر داخلہ کے مطابق بھارت کے فراہم کردہ شواہد کی روشنی میں پاکستان نے جو تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان زیرحراست افراد کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ جس پر پاکستان میں پابندی عائد ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک آسٹریا، اسپین اور روس تک پھیلا ہوا ہے۔ ان ملکوں میں بھی ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی۔ امریکہ کے شہر ہوسٹن کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جہاں حملہ آوروں کا کسی نہ کسی طرح رابطہ رہا۔ مشیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملہ آور پاکستان سے ہی بھارت گئے لیکن انہیں حملہ آوروں کی شناخت اور خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکام سے کہا ہے کہ اجمل قصاب کا ساتھ دینے والے 9حملہ آوروں کے ناموں اور دیگر تفصیلات سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے تاکہ تحقیقات میں مزید مدد مل سکے۔ ممبئی حملوں کے ملزمان کا اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ان کیمرہ ٹرائل ہوگا۔
بھارت نے پاکستان کی تفتیشی رپورٹ کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے لیکن بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کا یہ اعتراف بھارت اور اقوام متحدہ کو پاکستان کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرتا ہے۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کی اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرکے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ ان کے بقول یہ رپورٹ امریکا کے کہنے پر جاری کی گئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ راستہ کیا تھا؟
ایسی صورت حال ایک نہ ایک دن ضرور پیدا ہونی تھی‘ چاہے پاکستان میں کوئی سویلین حکومت ہوتی یا فوجی حکومت۔ کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔ ویسے بھی ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے کی نوبت آگئی تھی۔ اگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرکے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اور دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حقیقی کوششیں کررہی ہے۔ اگر خطے کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان خدانخواستہ جنگ چھڑجاتی تو نقصانات کا اندازہ وہ لوگ ہرگز نہیں کرسکتے‘ جو ابھی تک انتہا پسندی کے فلسفہ پر کاربند ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے اور یہاں دہشت گردی کے کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں‘ جن میں بھارت کے ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد بھی جمع کیے جاسکتے ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں بیرونی دنیا میں جو تاثر پایا جاتا ہے‘ وہ شاید بھارت کے بارے میں نہیں ہے۔ لیکن دنیا کی سوچ کو بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستانی ریاست خصوصاً پاکستان کی اصل حکمران اشرافیہ انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ دنیا کی اس بات کو ہم اگر جذبہ قوم پرستی کے تحت لغو اور بے ہودہ قرار دے دیں تو پاکستان کی داخلی سیاست میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اس سے ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ یہ تو پاکستان کے عوام سے پوچھا جائے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور انتہا پسندوں کے مابین مبینہ ”غیر مقدس اتحاد“ (UNHOLY ALLIANCE) کی باتیں خود پاکستان کے لوگ بھی کررہے ہیں تو پھر دوسروں کو ایسی باتیں کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لیے ہمیشہ انتہا پسندوں کو مضبوط کیا۔ چاہے وہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق جیسا مذہبی فکر رکھنے والا ہو یا روشن خیالی کا نمونہ جنرل پرویز مشرف ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فوجی حکومتیں رہی ہیں‘ لیکن کہیں بھی ریاست یا حقیقی حکمران اشرافیہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں یا انتہا پسندوں کی سرپرستی نہیں کرتی اور نہ ہی انہیں جمہوری اور اعتدال پسند قوتوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ریاست کا منشاء و مقصد و مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ ریاست کے طاقتور حلقوں کی پشت پناہی سے سیاست کرتے ہیں‘ وہ رواداری کے جوہر سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے اور سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے لوگوں کا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان اب تک بھارت کو اس طرح کے دباؤ میں نہیں لاسکا‘ جو فصل پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور غیر سیاسی حکمران اشرافیہ نے بوئی تھی‘ وہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں کاٹنا تھی۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے ممبئی حملوں میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا اعتراف کرکے پاکستانی ریاست کے ملوث ہونے کا تاثر بالکل ختم کردیا ہے اور دنیا کو یہ یقین دلایا دیا ہے کہ پاکستانی ریاست غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی حقیقی حکمران اشرافیہ اور انتہا پسندوں کے گٹھ جوڑ کے تاثر کو بھی حقیقی معنوں میں ختم کیا جائے۔ حکمران اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ہر طرح کے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے ایسی لاتعلقی اور دوری کا اظہارکرنا ہوگا‘ جسے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام بھی تسلیم کریں۔ پاکستان اس وقت خطرناک صورت حال سے دوچار ہے اور اس کے داخلی استحکام کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اب خطرے کا حقیقی ادراک کرنا ہوگا۔ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں خطرے کی گھنٹیاں بجارہی ہیں۔ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی پیچیدگیوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ بلوچستان بدامنی کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ فوج کے ادارے کو سیاست سے الگ کردیا جائے انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کی تمام کارروائیوں اور غلطیوں کا نتیجہ فوج کو بھگتنا پڑتا ہے یہی ایک ادارہ ہے‘ جو ملک کے دفاع اور سلامتی کا ضامن ہے۔ اگر بھارت سے جنگ ہوجاتی تو فوج کو ہی ساری صورت حال کا سامنا کرنا ہوتا۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں بھی فوج کے جوان ہی قربانیاں دے رہے ہیں۔ فوج کو دفاع وطن کے ایک ادارے کے طور پر ہمیں باقی رکھنا ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماضی کے غیر جمہوری حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں جو تاثر پیدا کیا‘ اسے زائل کرنا ہے تاکہ پاکستان کے لئے پھر کبھی ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔
Friday, April 17, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment