Friday, April 17, 2009

ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کر رہے ہیں،گیلانی

اسلام آباد: وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے وزیر اعظم ہاوس میں امریکی سینٹرز کے وفد سے ملاقا ت کے دوران کہی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے دونوں ممالک کے خفیہ اداروں اور اعلی سطی رابطوں میں اضافہ کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد مشروط کرنے سے دہشت گردی کے جنگ میں خلاف مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے تک اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس موقع پر امریکی کانگر س کے وفد کے سربراہ جیک ریڈ نے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کے تحفظات امریکی سینٹ تک نہیں پہنچائیں گے۔

نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر اجتماع؟

نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر اجتماع؟
اطلاعات کے مطابق پاک افغانستان سرحد کے قریب امریکی و اتحادی افواج کی نقل وحرکت میں اضافہ ہوگیا اور 500 سے زائد اتحادی ،جدید اسلحہ سیکڑوں ٹینکوں ‘ توپ خانوں اور ہیلی کاپٹرو جنگی جہازوں سے لیس ہوکر پاکستانی سرحد کے قریب پہنچ گئے ہیں، علاقے میں اتحادی جنگی طیاروں کی پروازیں بھی جاری ہیں۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل اطہر عباس نے پاک افغان سرحد پر نیٹو فورسز کے گشت سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، نقل وحمل افغان سرحد کے اندر ہے اور پاکستان سے خاصے فاصلے پر ہے۔ادھرامریکی صدر بش بھی کہہ رہے ہیں پاکستان سے انتہا پسندوں کا افغانستان جانا پریشان کن ہے جبکہ وزبر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی کہہ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے باعث نائن الیون طرز کا واقعہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔

نیٹو افواج کا پاکستانی سرحدوں پر جمع ہوناخطرے کی گھنٹی تو نہیں؟ کیا موجودہ حکومت امریکی مداخلت روکنے میں کامیاب ہوسکے گی ؟ کیا دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے ؟ کیا واقعی نائن الیون کی تاریخ دہرائی جائے گی ؟سرحدوں کی تشویشناک صورتحال پر وزیر اعظم کا بیان کس بات کی عکاسی کر رہا ہے ؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

امریکی جنگی حکمت عملی اور پاکستان کا رد عمل!

امریکی جنگی حکمت عملی اور پاکستان کا رد عمل!
امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن نے پنٹاگون میں بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ نئی فوجی حکمت عملی میں پاکستان کے اند ربھی کارروائی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان سرحد کے دونوں جانب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بائیں گے۔اس سے قبل صدر بش بھی اسی طرح کا حکمت علی کا اظہار کرچکے ہیں۔ امریکی کمانڈر کے اس بیان پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ ملکی سرحدوں کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا۔ پاکستان میں کسی غیر ملکی افواج کو آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے، اتحادی افواج کے ساتھ تعاون میں قوائد و ضوابط طے شدہ ہیں،اتحادی افواج سے پاکستانی حدود کے اندر کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

کیا پاکستان کے اندرونی علاقوں پر کارروائی پاکستان پر براہ راست حملے کی دھمکی نہیں ہے؟ کیا ہم نے تعاون کا معاہدہ اس لئے کیا تھا کہ ہم پر ہی چڑھائی کی جائے ؟ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے فوری طور پرکیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟۔ اس بارے میں آپ کی کیارائے ہے۔

سیکورٹی ہائی الرٹ یا ہائی فلرٹ؟

سیکورٹی ہائی الرٹ یا ہائی فلرٹ؟
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت کے بعد خود ہماری سیکورٹی یا سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ہمارا ملک پے درپے خود کش حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ملک کی حساس ترین مقامات بھی خود کش حملوں سے محفوظ نہیں۔رواں سال کے آغاز سے اب تک درجنوں خود کش حملوں بھاری مالی اور جانی نقصان ہوچکا ہے۔حساس مقامات پر سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود خودکش حملے شہریوں کیلئے باعث تشویش ہیں۔ عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں۔سیکورٹی ہائی الرٹ مذاق بن کر رہ گئی ہے یا یہ کہیے کہ سیکورٹی ہائی فلرٹ ہوتی جا رہی ہے۔اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

پاکستان میں میزائل حملوں پراوبامہ کا پیغام !

پاکستان میں میزائل حملوں پراوبامہ کا پیغام !
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں میزائل حملے جاری رہیں گے اورہر جگہ القاعدہ کا تعاقب کیا جائے گااس فیصلے سے پاکستان کو آگاہ کردیا گیا ہے،طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے اوروہ آزادانہ سرحد پارکرتے ہیں،اسلام آباد دوست اورساتھی ملک ہے جس کی صورتحال پر گہری نگاہ ہے،پاکستان اورافغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی محاذ ہیں،افغانستان امریکا کیلئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے اورمستقبل میں امریکا کو افغانستا ن میں مشکل اورطویل جنگ کا سامنا ہے۔ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کوسیکورٹی پر بریفنگ دیتے ہوئے رابرٹ گیٹس نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا دوست اورساتھی ہے اورہمارے لئے ضروری ہے ہم پاکستان کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں۔انہوں نے کمیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کی صورتحال پر ان کی گہری نگاہ ہے۔افغانستا ن کے حوالے سے امریکی وزیر دفاع نے بتایا کہ افغانستا ن امریکا کے لئے سب سے بڑا فوجی چیلنج ہے،اس حوالے سے واضح ہدایت کی ہے امریکی فوجی وسائل عراق سے افغانستان اورپاکستان منتقل کئے جائیں کیوں کہ یہ خطہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں کا مرکزی محاذہے۔ اوبامہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔

اوبامہ کا پیغام بش پالیسیوں کا تسلسل نہیں؟اوباما کے اس بیان پر حکومت پاکستان کا کیا موقف ہونا چاہئے؟ایک طرف تو امریکا پاکستان کو دوست اور ساتھی کہتاہے اور دوسری طرف میزائل حملے کیے جاتے ہیں کیا دوستوں کی مدد اس طرح کی جاتی ہے؟اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟

طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طالبان پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر فوج ساتھ نہ دیتی تو طالبان اسلام آباد میں داخل ہوسکتے تھے۔امریکی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر زرداری کا کہا کہ طالبان ملک کے بڑے حصہ میں موجود ہیں، اور وہ ہماری بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ ہمارا طرز زندگی بدلنا چاہتے ہیں انہیں روکنا ہوگا۔

قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملے!

قبائلی علاقوں پر ڈرونز حملے!
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے بغیر پائلٹ جاسوس طیارے پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا بیان ہے جو پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث بننے کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کیلئے اس کے امریکا کے ساتھ تعاون کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اس ایشو پر عوامی سطح پر بیان دیا ہے کہ آخر پاکستانی سرزمین پر حملوں کیلئے یہ جاسوس طیارے کہاں سے اڑتے ہیں اور کہاں لینڈ کرتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے کئی ماہرین کا یہ خیال تھا کہ یہ جاسوس طیارے افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں تاہم فائن اسٹائن کے بیان کے بعد ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف اسلام آباد میں حکومت کیلئے کئی سیاسی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

مزید قبائلی علاقے امریکی ہدف پر؟

مزید قبائلی علاقے امریکی ہدف پر؟
ایک امریکی اخبار کے مطابق اوباما انتظامیہ نے پاکستان میں میزائل حملوں کیلئے اپنے اہداف بڑھادیئے ہیں ۔اخبار کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو حملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سی آئی اے پاکستان میں عسکریت پسندو ں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کیلئے دوسرے علاقوں پر بھی میزائل حملے کر رہی ہے۔اس کے مطابق ان حملوں میں بیت اللہ محسود کے تربیتی کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ صدر جارج بش کے دور میں سر حد پار افغانستان پر حملوں میں ملوث القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں پر مسلسل حملے ہوتے رہے لیکن بیت اللہ محسود کے ساتھ ان حملوں کی زد میں اسلئے نہیں آئے کہ وہ براہ راست امریکی فوج پرحملوں میں ملوث نہیں تھے ۔ گزشتہ سال امریکی اور پاکستانی حکام نے کہا تھاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود ملوث ہیں ۔ جارج بش نے بیت اللہ محسود کا نام عسکریت پسند رہنماؤں کی اس فہرست میں شامل کیا تھا ،جن کو ہلاک یا گرفتار کر نے کی ذمہ داری سی ائی اے اور امریکی کمانڈوز کو سونپی گئی ہے۔یہ واضح نہیں ہے کہ اوباما انتظامیہ نے محسود نیٹ ورک کے زیر انتظام ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے، گزشتہ ہفتہ کا حملہ خاص طور بیت اللہ محسود پر کیا گیا تاہم پاکستانی اور امریکی حکام کے مطابق وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ عسکریت پسندوں کے اہم نمائندے حکیم اللہ محسود کے کیمپ پر کیا گیا۔محسود نیٹ ورک پر حملوں سے شاید نئی انتظامیہ یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے خلاف کام کر رہی ہے جو پاکستانی رہنماؤں کے لئے پریشانی کا باعث ہیں ۔

پاکستان کے دیگر علاقوں پر بھی ڈرون حملوں پر غور؟

پاکستان کے دیگر علاقوں پر بھی ڈرون حملوں پر غور؟
اوباما انتظامیہ قبائیلی علاقوں کے بعد اب ڈرون حملوں کاسلسلہ بلوچستان کے بعض علاقوں تک پھیلانے پر غور کررہی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق وائٹ ہاؤس کو ملنے والی دو خفیہ رپورٹس میں امریکی حکام سے کہا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی سرگرمیاں بلوچستان کے بعض علاقوں میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں اس لئے طالبان اور القاعدہ کے ان مشتبہ ٹھکانوں پر جاسوس طیاروں سے حملے ضروری ہیں۔امریکی انتظامیہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے اس لئے اس سلسلے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔۔ اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیاں کوئٹہ کے ارد گرد کے علاقوں میں بہت بڑھ گئی ہیں جو مستقبل میں امریکیوں کے لیے خطرناک صورتحال پیدا کرسکتی ہیں۔دوسری طرف کانگریس کے15 اراکین نے صدر اوباما کو ایک خط کے ذریعے یہ مشورہ دیا ہے کہ افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور خطے میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مفاہمت کی راہ اختیار کریں۔گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں موجود پاکستانی اور افغان اہلکاروں نے بھی مفاہمتی پالیسی اختیار کر نے کا مشورہ دیا تھا ۔وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بلوچستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے حوالے سے کئی آپشنز پر غور کیا جارہاہے جس میں جاسوس طیاروں کے حملے بھی شامل ہیں تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ پاکستان اور افغانستان کے متعلق امریکی پالیسی پر نظر ثانی کے بعد ہی ہوگا ،تاہم اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتاکہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے متعلق ٹھوس اطلاعات کے بعد ایک جاسوس طیاروں کے بلوچستان میں حملوں کے واقعات ہوں۔

مناواں میں پولیس ٹریننگ سینٹرپر دہشت گردی !

ناواں میں پولیس ٹریننگ سینٹرپر دہشت گردی !
لاہور میں پولیس ٹریننگ اسکول مناواں میں ٹریننگ کے دورا ن دہشت گردوں کے حملے میں20 سے زائد پولیس جوان مارے گئے۔دہشت گردوں نے اسکول میں موجود متعدد اہلکاروں کو یرغمال بھی بنالیا۔جی ٹی روڈ پر واہگہ بارڈر کے قریب قائم پولیس ٹریننگ سینٹر مناواں میں پیر کی صبح دہشت گردوں نے اس وقت دستی بموں سے حملہ کردیا جب وہاں ڈرل ہورہی تھی ، جس کے بعد حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا،حملہ آور اس وقت ٹریننگ سینٹر کے اندر مورچہ بند ہوکرشدید فائرنگ کی۔حملہ آور پولیس کی وردی پہنی ہوئی تھی جس کے باعث سکیورٹی فورسز کی انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔پولیس ٹریننگ سینٹر کے اندرآنسو گیس کے شیل پھینکے۔ پولیس ٹریننگ سینٹر کو چاروں طرف سے گھیر لیا ۔واقعے کے بعد اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔پولیس نے گھنٹے طویل آپریشن کے بعد حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔
آپ کے خیال میں ایک ماہ کے دوران لاہور میں دہشت گردوں کے ایک اورحملے میں کونسے عناصر ملوث ہیں؟خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کی کارکردگی پر آپ کیا کہیں گے؟اس نوعیت کے حملوں کو روکنے کیلئے حکومت کو فوری طور پر کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

پاکستان اور افغانستان کیلئے نئی امریکی پالیسی

پاکستان اور افغانستان کیلئے نئی امریکی پالیسی
امریکی صدر بار اوباما نے افغانستان اور پاکستان کیلئے نئی پالیسی کا دیتے ہوئے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان میں جمہوری اداروں اور عوام کی مددکیلئے 1.5ارب ڈالر سالانہ کی امداد کا اعلان کر دیا ہے، یہ امداد اگلے 5سال تک دی جائیگی، امریکی صدر اوباما نے پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے نئی افغان پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان سے متعلق ایک جامع حکمت عملی کیلئے ہم نے پاک افغان حکومتوں سے مشورہ کیا ، جبکہ افغانستان میں موجود فوجی کمانڈروں سے مشاورت کے علاوہ محکمہ دفاع اور خارجہ کے ساتھ ارکان کانگریس کو بھی اعتماد میں لیتے رہے، انھوں نے کہا کہ طالبان کو ہٹائے ہوئے 7سال سے زائد گذر گئے لیکن نیٹو اور ہمارے خلاف حملے بڑھ گئے،2008 ہمارے لیے سب سب سے تباہ کن سال ثابت ہوا۔صدر نے کہا کہ 9/11حملہ کرنے والے افغانستان اور پاکستان میں موجود ہیں،اگر افغان حکومت طالبان کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو پھر القاعدہ کا کنٹرول ہو جائیگا، اسامہ اور ایمن الظواہری نے پہاڑی علاقوں کو حملوں کیلئے استعمال کیا، امریکا کیلئے سب سے بڑا خطرہ یہ قبائلی پہاڑی علاقے ہیں یہ صرف امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے،دہشت گردوں نے بالی ، شمالی افریقہ اور لندن میں بھی حملے کئے۔امریکا پاکستان کا بہت احترام کر تا ہے اور پاکستانی عوام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہاں کے لوگ بھی وہی چاہتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں،ان سب کو بھی اکلوتا بڑا خطرہ القاعدہ اور اسکے اتحادیوں سے ہے۔دہشت گردوں کی کارروائیوں میں بے نظیر بھٹو اور سیکڑوں پاکستانی فوجی بھی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں ہم پاکستان کو بلینک چیک نہیں دے سکتے، پاکستان کو کارروائی کرکے دکھانا ہوگی ۔ صدر اوباما نے کہا کہ انتہاپسندی کیخلاف جنگ صرف گولیوں اور بموں سے نہیں کی جا سکتی، پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے اور عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے سالانہ 1.5ارب ڈالر پانچ سال تک کیلئے امداد کا اعلان کرتا ہوں اور یہ امداد اگلے 5سال تک دی جائیگی۔انھوں نے کہا کہ ہم جو اضافی فوجی افغانستان بھیج رہے ہیں وہ افغان فورس کی تیاری میں اہم کردار ادا کرینگے،اور فوج کی تربیت کرینگے جبکہ بیاسی ہزار افغان پولیس فورس بھی تیار کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ ہم اس مرتبہ سویلین ماہرین بھی افغانستان بھجوا رہے ہیں ان میں زرعی ماہرین،انجینئرز اور ماہرین تعلیم بھی شامل ہونگے یہ افغان عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کام کرینگے۔صدر اوبامہ نے کہا کہ ہماری فوجیں بہادری سے افغانستا ن میں لڑرہی ہیں جبکہ ہمارے شہریوں نے بھی عظیم قربانیاں دی ہیں، اب تک 700امریکی فوجیوں نے افغانستان میں اپنی جانیں قربان کردی ہیں۔انھوں نے کہا کہ منصب سنبھالتے ہی میں نے افغان پالیسی پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔پاکستان اور افغانستان امریکیوں کے لیے انتہائی خطرناک علاقہ بن چکا ہے، بحیثیت صدر ،میری اولین ذمہ داری ہے کہ میں امریکی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کروں۔انھوں نے کہا کہ نئی جنگی حکمت عملی کے تحت اب ہم مقامی لیڈروں، افغان حکام اور لوگوں کی مدد سے اپنی کوششوں کو منظم کرینگے۔انھوں نے کہا کہ میری انتظامیہ نے تہیہ کررکھا ہے کہ ہم عالمی اداروں کو مضبوط کرینگے اور ان سے تعاون جاری رکھیں گے۔

کیا القاعدہ امریکا پر حملے کی تیاری کررہی ہے،؟

کیا القاعدہ امریکا پر حملے کی تیاری کررہی ہے،؟
امریکی صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان میں موجود القاعدہ امریکا پر حملے کی تیاری کررہی ہے اورہم القاعدہ کا پیچھا کہیں نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی واضح ہے،افغانستان کو القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے،القاعدہ کا خاتمہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے۔لندن میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن بران سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بارک اوباما نے کہا کہ افغان عوام کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔صدر اوباما کا مزید کہنا تھا کہ جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کو سب سے بڑے معاشی بحران کاسامنا ہے اورتمام اختلافات بھلا کر معاشی بحران کے حل کیلئے کوششیں کرنا ہوں گی اور عالمی معاشی بحران کا ذمہ دار امریکا نہیں ہے۔ایک سوال پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ مسائل سفارتکاری کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔اس موقع پربرطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ عالمی معاشی بحران کے لئے امریکا اور برطانیہ کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اوباما دور میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان نئے تعلقات کا دور شروع ہوا ہے۔براؤن نے کہا کہ عالمی اقتصادی اداروں کو مضبوط کرکے معاشی بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ اور امریکا امن ہو یا جنگ ہر حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اورصدر اوباما کے ساتھ ملاقات میں عراق ،افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں امن پر بات چیت کی ہے۔صدر اوبا نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہاں کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو اکیسویں صدی میں سخت چیلنجز کا سامناہے،معاشی بحران کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں ۔

سوات میں لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا!

سوات میں طالبان کی جانب سے بدکاری کے الزام میں ایک خاتون کو سرعام کوڑوں کی سزا دی گئی۔میڈیا کوموصول ہو نے والی ویڈیو میں سرخ لباس میں ملبوس خاتون کو اوندھے منہ لٹا کر اس کی کمر پر کوڑے مارتے ہو ئے دکھایا گیا ہے۔مقامی افراد کے مطابق17سالہ اس شادی شدہ خاتون کو بدکاری کے الزام میں کوڑوں کی سزادی گئی،یہ واقعہ6 ماہ پہلے کبل کے علاقے کالا کلے میں پیش آیا۔طالبان کی جانب سے پہلے بھی بدکاری کے الزام میں کئی خواتین کو بندکمرے میں کوڑوں کی سزادی گئی تاہم یہ پہلا موقع کے کہ کسی خاتون کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ویڈیو میں خاتون کی شدت دردسے چیخیں سنائی دے رہی ہیں جبکہ اسے تین افراد نے پکڑ رکھا ہے،ذرائع کے مطابق سرکی طرف بیٹھا ہواشخص خاتون کا چھوٹابھائی ہے۔طالبان قیادت کاکہناہے کہ سوات میں امن معاہدے کے بعد کسی کو کوڑے نہیں مارے گئے جبکہ طالبان کے ترجمان مسلم خان کے مطابق ٹی وی چینلز پر ویڈیو دکھا نا امن معاہدہ سبوتاژ کر نے کی سازش ہے۔

پاکستان کا آئین اورقانون خاتون کو سر عام کوڑے مارنے کی اجازت دیتا ہے؟

کسی بھی مہذب معاشرے میں عورت کو سرعام کوڑے مارنے کا کوئی جواز ہے؟

حکومت ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟

کیا پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ تھا؟ ............... نشیب و فراز…عباس مہکری

پاکستان نے بالآخر اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ ممبئی حملوں کی کچھ منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی ہے۔ اگلے روز وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ رحمٰن ملک نے یہ بات تسلیم کی کہ ممبئی حملوں کی سازش جزوی طور یہاں تیار ہوئی۔ سازش کے ماسٹر مائنڈ سمیت 8افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، 6افراد پہلے ہی زیرحراست ہیں۔ مشیر داخلہ کے مطابق بھارت کے فراہم کردہ شواہد کی روشنی میں پاکستان نے جو تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان زیرحراست افراد کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ جس پر پاکستان میں پابندی عائد ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک آسٹریا، اسپین اور روس تک پھیلا ہوا ہے۔ ان ملکوں میں بھی ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی ہوئی۔ امریکہ کے شہر ہوسٹن کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جہاں حملہ آوروں کا کسی نہ کسی طرح رابطہ رہا۔ مشیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملہ آور پاکستان سے ہی بھارت گئے لیکن انہیں حملہ آوروں کی شناخت اور خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکام سے کہا ہے کہ اجمل قصاب کا ساتھ دینے والے 9حملہ آوروں کے ناموں اور دیگر تفصیلات سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے تاکہ تحقیقات میں مزید مدد مل سکے۔ ممبئی حملوں کے ملزمان کا اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ان کیمرہ ٹرائل ہوگا۔
بھارت نے پاکستان کی تفتیشی رپورٹ کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے لیکن بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کا یہ اعتراف بھارت اور اقوام متحدہ کو پاکستان کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرتا ہے۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے ممبئی حملوں کی اس طرح کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کرکے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ ان کے بقول یہ رپورٹ امریکا کے کہنے پر جاری کی گئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ راستہ کیا تھا؟
ایسی صورت حال ایک نہ ایک دن ضرور پیدا ہونی تھی‘ چاہے پاکستان میں کوئی سویلین حکومت ہوتی یا فوجی حکومت۔ کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔ ویسے بھی ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے کی نوبت آگئی تھی۔ اگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرکے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اور دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حقیقی کوششیں کررہی ہے۔ اگر خطے کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان خدانخواستہ جنگ چھڑجاتی تو نقصانات کا اندازہ وہ لوگ ہرگز نہیں کرسکتے‘ جو ابھی تک انتہا پسندی کے فلسفہ پر کاربند ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے اور یہاں دہشت گردی کے کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں‘ جن میں بھارت کے ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد بھی جمع کیے جاسکتے ہیں لیکن پاکستان کے بارے میں بیرونی دنیا میں جو تاثر پایا جاتا ہے‘ وہ شاید بھارت کے بارے میں نہیں ہے۔ لیکن دنیا کی سوچ کو بدلنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستانی ریاست خصوصاً پاکستان کی اصل حکمران اشرافیہ انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ دنیا کی اس بات کو ہم اگر جذبہ قوم پرستی کے تحت لغو اور بے ہودہ قرار دے دیں تو پاکستان کی داخلی سیاست میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اس سے ہم کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ یہ تو پاکستان کے عوام سے پوچھا جائے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور انتہا پسندوں کے مابین مبینہ ”غیر مقدس اتحاد“ (UNHOLY ALLIANCE) کی باتیں خود پاکستان کے لوگ بھی کررہے ہیں تو پھر دوسروں کو ایسی باتیں کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لیے ہمیشہ انتہا پسندوں کو مضبوط کیا۔ چاہے وہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق جیسا مذہبی فکر رکھنے والا ہو یا روشن خیالی کا نمونہ جنرل پرویز مشرف ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فوجی حکومتیں رہی ہیں‘ لیکن کہیں بھی ریاست یا حقیقی حکمران اشرافیہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں یا انتہا پسندوں کی سرپرستی نہیں کرتی اور نہ ہی انہیں جمہوری اور اعتدال پسند قوتوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ریاست کا منشاء و مقصد و مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ ریاست کے طاقتور حلقوں کی پشت پناہی سے سیاست کرتے ہیں‘ وہ رواداری کے جوہر سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے اور سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے لوگوں کا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان اب تک بھارت کو اس طرح کے دباؤ میں نہیں لاسکا‘ جو فصل پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور غیر سیاسی حکمران اشرافیہ نے بوئی تھی‘ وہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں کاٹنا تھی۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے ممبئی حملوں میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا اعتراف کرکے پاکستانی ریاست کے ملوث ہونے کا تاثر بالکل ختم کردیا ہے اور دنیا کو یہ یقین دلایا دیا ہے کہ پاکستانی ریاست غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی حقیقی حکمران اشرافیہ اور انتہا پسندوں کے گٹھ جوڑ کے تاثر کو بھی حقیقی معنوں میں ختم کیا جائے۔ حکمران اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ہر طرح کے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے ایسی لاتعلقی اور دوری کا اظہارکرنا ہوگا‘ جسے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام بھی تسلیم کریں۔ پاکستان اس وقت خطرناک صورت حال سے دوچار ہے اور اس کے داخلی استحکام کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اب خطرے کا حقیقی ادراک کرنا ہوگا۔ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں خطرے کی گھنٹیاں بجارہی ہیں۔ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی پیچیدگیوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ بلوچستان بدامنی کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ فوج کے ادارے کو سیاست سے الگ کردیا جائے انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کی تمام کارروائیوں اور غلطیوں کا نتیجہ فوج کو بھگتنا پڑتا ہے یہی ایک ادارہ ہے‘ جو ملک کے دفاع اور سلامتی کا ضامن ہے۔ اگر بھارت سے جنگ ہوجاتی تو فوج کو ہی ساری صورت حال کا سامنا کرنا ہوتا۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں بھی فوج کے جوان ہی قربانیاں دے رہے ہیں۔ فوج کو دفاع وطن کے ایک ادارے کے طور پر ہمیں باقی رکھنا ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماضی کے غیر جمہوری حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں جو تاثر پیدا کیا‘ اسے زائل کرنا ہے تاکہ پاکستان کے لئے پھر کبھی ایسے حالات پیدا نہ ہوں۔